All about Politics Facts, Quotes, Technology, Columns and important worldwide issues.
Friday, 27 December 2019
Thursday, 5 December 2019
District Jammu History & Comparison (Urdu Language)
انڈین مقبوضہ جموں و کشمیر کے کل 22 اضلا ع میں
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے . جموں ڈسٹرکٹ
کی آبادی 25 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے یعنی جموں بھارتی شہروں لکھنو , بھوپال ,آگرہ ,پٹنہ , چندی گڑھ اور لدھیانہ
اور پاکستانی شہروں
فیصل آباد ,راولپنڈی ,پشاور ,ملتان اور اسلام آباد سے بڑا شہر ہے .
جموں ڈسٹرکٹ آبادی میں آزاد ملکوں قطر , بحرین , موریشس ,مالدیپ اور بھوٹان سے بڑا ہے .
جموں چار تحصیلوں رنبیر سنگھ پورہ ,اکھنور ,بشنۂ اور جموں پر مشتمل ہے.
جموں بھارتی مقبوضہ ریاست کا سرمائی دارلحکومت بھی ہے .
بانی ریاست جموں و کشمیر مہاراجہ گلاب سنگھ اور باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ نافذ کرنے والے مہاراجہ ہری سنگھ کا آبائی شہر . انکی بادشاہت ناانصافی کرپشن اور ان کے غیر مسلم ہونے یا ان کی ذات پات پر بہت سے لوگوں کو اعتراض ہو سکتا ہے . مگر ان کی کشمیریت اور انکی اصلاحات سے نظریں پھیر لینا ناانصافی ہو گی -
اسے مندروں اور گردواروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے . یہ پوری ریاست جموں کشمیر کا سب سے پر امن اور تعلیم یافتہ ترین شہر ہے . معاشی لحاظ سے اسے کشمیر کی معیشت کا دل کہا جا سکتا ہے . جیسے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے شہر میرپور کو ایشیا کا برمنگھم کہا جاتا ہے برٹش میرپوری کشمیریوں نے برطانیہ سے کروڑوں روپے کی میرپور میں سرمایہ کاری کر کے اس علاقه کے محنت کشوں کو روزگار مہیا کر رکھا ہے اسلام آباد کے بعد یہ پورے پاکستان میں سب سے ترقی یافتہ جدید پرامن اور صاف ستھرا شہر ہے . اسلام آباد کے بعد سب سے زیادہ غیر ملکی اس شہر میں دیکھنے کو ملتے ہیں یہاں برطانوی حکومت کے بھی مختلف ادارے کام کرتے ہیں اسکی تفصیل بعد میں ضلع میرپور کی پوسٹ میں شئر کی جاے گی .
گو کے روزگار دینا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر جب ملک بیرونی غاصب کے تسلط میں ہو اور ریاست غاصب کی دلالی کا کردار ادا کرے تو عوام بنیادی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں غاصبوں کے دلال اقتدار میں آ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور محظ اپنے چیلے چمچوں کو ٹوٹی کھمبا کلرکی اور استاد استانی کی پوسٹ دے کر انکی جہالت اور مجبوریوں کو خرید لیتے ہیں باقی عوام سے انکا سروکار صرف ووٹ کی حد تک ہوتا ہے . ایسے میں مخیر شہریوں کو قومی سرمایہ دار کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے تاکہ جاگیردارانہ باقیات پر ضرب لگا کر سماج کو ترقی دی جاے . انقلاب کے بعد قومی سرمایہ دار اپنی دولت قومی ملکیت میں دے دیتے ہیں یا ریاست جبری املاک کو قومی تحویل میں لے لیتی ہے چین ویتنام اور کوریا میں اسکی مثال ملتی ہے .
اس طرح جموں کو کشمیر کا لندن کہا جا سکتا ہے . مہاراجوں نے ریاست کے چاروں اطراف سے دولت لوٹ کر جموں پر لگائی . یہ شہر آج پوری ریاست میں زیادہ ترقی یافتہ ہے - تاریخی ارتقا اور غیر ہموار ترقی میں جموں بڑھتا اور ترقی کرتا گیا . یہی وجہ ہے کہ آج جموں تعلیمی ثقافتی معاشی اور سماجی طور پر ریاست کا سب سے ترقی یافتہ اور مضبوط شہر ہے -
قدرت نے اس شہر پر نہ صرف زمینی حسن کے خزانے کھولے بلکہ یہاں بسنے والے انسان حسن و کشش میں لازوال ہیں.
جموں کے تفریحی اور تاریخی مقامات میں سیاحوں کے درج خیالات میں جموں شہر اور یہاں کے باسیوں کے حسن کی تریف کے قصیدے بھرے پڑھے ہیں .
چودہویں صدی میں ایک ہندو راجہ جمبو لوچن شکار کرتے ہوئے دریاۓ توی کے کنارے پہنچا تو اس نے توی میں ایک شیر اور بکری کو اکھٹے پانی پیتے دیکھا .
اسے گمان ہوا یہ امن و شانتی والی جگہ ہے سو وہ یہاں آباد ہو گیا . اسی کے نام سے شہر جموں آباد ہوا .
آزاد و خود مختار ریاست جموں کشمیر پر جب 1947 میں پاکستانی سیاسی حکومت کی لاعلمی میں پاکستانی وڈیروں انکے مفاد کا تحفظ کرنے والے جرنیلوں نے قبائلی لٹیروں سے لوٹ مار کا ٹھیکہ کر کے ریاست پر حملہ کیا تو گلگت مظفرآباد باغ کوٹلی اور میرپور کے ہندو کشمیریوں پر قیامت ٹوٹ پڑ ی تھی . انکا اپنا وطن کشمیر رہزنوں اور قاتلوں کی یلغار میں تھا ہندو کشمیری جو پہلے ہی مہاراجہ کے ظلم و استحصال کا شکار تھے اب ان پر اپنے ہی وطن کی زمین تنگ ہو چکی تھی جو زندہ بچے وہ اپنی عزت آبرو اور مال متا ع گنوا کر جموں پہنچے جہاں پہلے سے ہندو اکثریت تھی .
آج جموں کی 25 لاکھ آبادی میں ایک تہائی مہاجر ہیں جو باقی ریاست سے 1947 میں جموں اے .
جموں یونیورسٹی کا شمار انڈیا کی اعلی درسگاہوں میں ہوتا ہے . جموں میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے دہلی اور چندی گڑھ والوں کو مقابلے کا امتحان پاس کرنے پر بھی داخلہ نہیں ملتا کیونکہ کشمیری طلبہ کو خصوصی داخلہ دیا جاتا ہے .
جموں شہر میں خواندگی % 99 جبکہ ڈسٹرکٹ میں %88 فیصد ہے .
ہندو آبادی کا %84 ہیں مسلم 8 اور سکھ 7 فیصد . مسلم اقلیت ہیں مگر کبھی کسی تعصب یا مذھبی جنونیت کا شکار نہیں ہوئے . جموں کی تاریخ میں کبھی اس شہر میں مذہبی فرقہ واریت نہیں ہوئی یہ اعلی اور معیاری تعلیم کا کمال ہے .نہ یہاں کے ہندو اکثریت
انڈین جھنڈا لہراتے پھرتے ھیں نہ کسی غاصب ملک کی دلالی کرتے ھیں اقلیت میں کچھ لوگ بھارت نواز بھی ھیں . شھر مزھب کے نھیں انسانوں کے ھوتے ھیں جموں ھندو اکثریت کا شہر ھے اور جموں شھر کا بانی بھی ایک ھندو تھا - ہمہیں اس حقیقت پر حاسد نھیں ھونا چاھئے ھندو بھی انسان ھیں اور کشمیری ھیں -
.انھیں کشمیری ھونے پر فخر ہے .
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے . جموں ڈسٹرکٹ
کی آبادی 25 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے یعنی جموں بھارتی شہروں لکھنو , بھوپال ,آگرہ ,پٹنہ , چندی گڑھ اور لدھیانہ
اور پاکستانی شہروں
فیصل آباد ,راولپنڈی ,پشاور ,ملتان اور اسلام آباد سے بڑا شہر ہے .
جموں ڈسٹرکٹ آبادی میں آزاد ملکوں قطر , بحرین , موریشس ,مالدیپ اور بھوٹان سے بڑا ہے .
جموں چار تحصیلوں رنبیر سنگھ پورہ ,اکھنور ,بشنۂ اور جموں پر مشتمل ہے.
جموں بھارتی مقبوضہ ریاست کا سرمائی دارلحکومت بھی ہے .
بانی ریاست جموں و کشمیر مہاراجہ گلاب سنگھ اور باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ نافذ کرنے والے مہاراجہ ہری سنگھ کا آبائی شہر . انکی بادشاہت ناانصافی کرپشن اور ان کے غیر مسلم ہونے یا ان کی ذات پات پر بہت سے لوگوں کو اعتراض ہو سکتا ہے . مگر ان کی کشمیریت اور انکی اصلاحات سے نظریں پھیر لینا ناانصافی ہو گی -
اسے مندروں اور گردواروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے . یہ پوری ریاست جموں کشمیر کا سب سے پر امن اور تعلیم یافتہ ترین شہر ہے . معاشی لحاظ سے اسے کشمیر کی معیشت کا دل کہا جا سکتا ہے . جیسے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے شہر میرپور کو ایشیا کا برمنگھم کہا جاتا ہے برٹش میرپوری کشمیریوں نے برطانیہ سے کروڑوں روپے کی میرپور میں سرمایہ کاری کر کے اس علاقه کے محنت کشوں کو روزگار مہیا کر رکھا ہے اسلام آباد کے بعد یہ پورے پاکستان میں سب سے ترقی یافتہ جدید پرامن اور صاف ستھرا شہر ہے . اسلام آباد کے بعد سب سے زیادہ غیر ملکی اس شہر میں دیکھنے کو ملتے ہیں یہاں برطانوی حکومت کے بھی مختلف ادارے کام کرتے ہیں اسکی تفصیل بعد میں ضلع میرپور کی پوسٹ میں شئر کی جاے گی .
گو کے روزگار دینا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر جب ملک بیرونی غاصب کے تسلط میں ہو اور ریاست غاصب کی دلالی کا کردار ادا کرے تو عوام بنیادی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں غاصبوں کے دلال اقتدار میں آ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور محظ اپنے چیلے چمچوں کو ٹوٹی کھمبا کلرکی اور استاد استانی کی پوسٹ دے کر انکی جہالت اور مجبوریوں کو خرید لیتے ہیں باقی عوام سے انکا سروکار صرف ووٹ کی حد تک ہوتا ہے . ایسے میں مخیر شہریوں کو قومی سرمایہ دار کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے تاکہ جاگیردارانہ باقیات پر ضرب لگا کر سماج کو ترقی دی جاے . انقلاب کے بعد قومی سرمایہ دار اپنی دولت قومی ملکیت میں دے دیتے ہیں یا ریاست جبری املاک کو قومی تحویل میں لے لیتی ہے چین ویتنام اور کوریا میں اسکی مثال ملتی ہے .
اس طرح جموں کو کشمیر کا لندن کہا جا سکتا ہے . مہاراجوں نے ریاست کے چاروں اطراف سے دولت لوٹ کر جموں پر لگائی . یہ شہر آج پوری ریاست میں زیادہ ترقی یافتہ ہے - تاریخی ارتقا اور غیر ہموار ترقی میں جموں بڑھتا اور ترقی کرتا گیا . یہی وجہ ہے کہ آج جموں تعلیمی ثقافتی معاشی اور سماجی طور پر ریاست کا سب سے ترقی یافتہ اور مضبوط شہر ہے -
قدرت نے اس شہر پر نہ صرف زمینی حسن کے خزانے کھولے بلکہ یہاں بسنے والے انسان حسن و کشش میں لازوال ہیں.
جموں کے تفریحی اور تاریخی مقامات میں سیاحوں کے درج خیالات میں جموں شہر اور یہاں کے باسیوں کے حسن کی تریف کے قصیدے بھرے پڑھے ہیں .
چودہویں صدی میں ایک ہندو راجہ جمبو لوچن شکار کرتے ہوئے دریاۓ توی کے کنارے پہنچا تو اس نے توی میں ایک شیر اور بکری کو اکھٹے پانی پیتے دیکھا .
اسے گمان ہوا یہ امن و شانتی والی جگہ ہے سو وہ یہاں آباد ہو گیا . اسی کے نام سے شہر جموں آباد ہوا .
آزاد و خود مختار ریاست جموں کشمیر پر جب 1947 میں پاکستانی سیاسی حکومت کی لاعلمی میں پاکستانی وڈیروں انکے مفاد کا تحفظ کرنے والے جرنیلوں نے قبائلی لٹیروں سے لوٹ مار کا ٹھیکہ کر کے ریاست پر حملہ کیا تو گلگت مظفرآباد باغ کوٹلی اور میرپور کے ہندو کشمیریوں پر قیامت ٹوٹ پڑ ی تھی . انکا اپنا وطن کشمیر رہزنوں اور قاتلوں کی یلغار میں تھا ہندو کشمیری جو پہلے ہی مہاراجہ کے ظلم و استحصال کا شکار تھے اب ان پر اپنے ہی وطن کی زمین تنگ ہو چکی تھی جو زندہ بچے وہ اپنی عزت آبرو اور مال متا ع گنوا کر جموں پہنچے جہاں پہلے سے ہندو اکثریت تھی .
آج جموں کی 25 لاکھ آبادی میں ایک تہائی مہاجر ہیں جو باقی ریاست سے 1947 میں جموں اے .
جموں یونیورسٹی کا شمار انڈیا کی اعلی درسگاہوں میں ہوتا ہے . جموں میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے دہلی اور چندی گڑھ والوں کو مقابلے کا امتحان پاس کرنے پر بھی داخلہ نہیں ملتا کیونکہ کشمیری طلبہ کو خصوصی داخلہ دیا جاتا ہے .
جموں شہر میں خواندگی % 99 جبکہ ڈسٹرکٹ میں %88 فیصد ہے .
ہندو آبادی کا %84 ہیں مسلم 8 اور سکھ 7 فیصد . مسلم اقلیت ہیں مگر کبھی کسی تعصب یا مذھبی جنونیت کا شکار نہیں ہوئے . جموں کی تاریخ میں کبھی اس شہر میں مذہبی فرقہ واریت نہیں ہوئی یہ اعلی اور معیاری تعلیم کا کمال ہے .نہ یہاں کے ہندو اکثریت
انڈین جھنڈا لہراتے پھرتے ھیں نہ کسی غاصب ملک کی دلالی کرتے ھیں اقلیت میں کچھ لوگ بھارت نواز بھی ھیں . شھر مزھب کے نھیں انسانوں کے ھوتے ھیں جموں ھندو اکثریت کا شہر ھے اور جموں شھر کا بانی بھی ایک ھندو تھا - ہمہیں اس حقیقت پر حاسد نھیں ھونا چاھئے ھندو بھی انسان ھیں اور کشمیری ھیں -
.انھیں کشمیری ھونے پر فخر ہے .
Subscribe to:
Posts (Atom)
List of Pakistani Banks in UAE
Pakistani Banks in UAE 1. Habib Bank (HBL) 2. United Bank (UBL) 3. Muslim Commercial Bank (MCB) 4. Bank Al Fallah 5. Habib Metropolita...
-
Android sms applications Permission for Premium service. When we are sending messages to non regular Numbers like 2344 or 145 etc. While...
-
 Finally Government of Pakistan is Ready to Issue E-Passports. Interior Minister announced that Passports and Immigration Off...