All about Politics Facts, Quotes, Technology, Columns and important worldwide issues.
Friday, 26 May 2017
Thursday, 25 May 2017
Google Photos now makes it easy to hide your nudes
Google Photos now makes it easy to hide your nudes
A new update to Google Photos will now let you archive photos from the main feed and hide them away, helping you declutter and privatize some personal photos. First spotted by 9 to 5 Google, all you have to do is hold the photo(s) and hit the “...” menu on the right side to bring up the archive option. Later, when you want to revisit those photos, you can find them on the left side menu under a separate folder.
While it might not seem as buzzworthy as, say, Instagram’s implementation of it on a user profile, it is great if you share a library with a significant other or family members and don’t want certain images just floating about in the main feed. You can also archive away repetitive photos, screenshots, or whatever you might not want to see while scrolling through the gallery. And let’s not forget what it’s truly useful for: relocating, ahem, private images you don’t want others to see when you hand them your phone to show them a picture.
A new update to Google Photos will now let you archive photos from the main feed and hide them away, helping you declutter and privatize some personal photos. First spotted by 9 to 5 Google, all you have to do is hold the photo(s) and hit the “...” menu on the right side to bring up the archive option. Later, when you want to revisit those photos, you can find them on the left side menu under a separate folder.
While it might not seem as buzzworthy as, say, Instagram’s implementation of it on a user profile, it is great if you share a library with a significant other or family members and don’t want certain images just floating about in the main feed. You can also archive away repetitive photos, screenshots, or whatever you might not want to see while scrolling through the gallery. And let’s not forget what it’s truly useful for: relocating, ahem, private images you don’t want others to see when you hand them your phone to show them a picture.
Wednesday, 24 May 2017
We are free ہم آزاد ہیں.
ہم آزاد ہیں
* آزاد کشمیر*
ویسے تو ہم آزاد ہی ہیں ہمارا آپنا جھنڈا ہے ہمارا آپنا وزیراعظم ہے آپنا صدر ہے آپنی سپریم کوٹ ہے
بس اتنا ہے کہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک نے آزاد کشمیر کو آزاد ملک تسلیم نی کیا ہوا
باقی ہم آزاد ہیں
الله پاک کی مہربانی سے ہماری آپنی قانون سازاسمبلی ہے
بس اتنا ہے کہ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے لیے ٹکٹ گڑھی خدابخش ، جاتی عمرہ ، اور بنی گالہ سے ایشو ہوتے ہیں
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم اور صدر آزاد کشمیر کے عوام الیکٹ نی کرتے بلکے اسلام آباد سرکار سلیکٹ کرتی ہے
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ چیف سیکرٹری ، آٴی جی پولیس اور چند اس طرح کے بڑے عہدوں پر ہماری آزاد حکومت کسی کشمیری کو تعینات کرنے کا اختیار نہیں رکھتی اس لیے یہ لینڈآفسران پاکستان سے آتے ہیں
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ کشمیر میں بہتے پانیوں پر اور اس سے پیدا ہونے والی بجلی پر آزاد کشمیر حکومت کے دٴراہ اختیار میں نہیں
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ ہماری آزاد حکومت کشمیری طالبعلموں کو مطالعہ کشمیر نی پڑھا سکتی کیوں کہ اس سے کشمیری طالبہ گمراہ ہو سکتے ہیں اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوے پورے تعلیمی نصاب سے کشمیر کے نام تک کو مٹا دیا گیا ہے
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم ، صدر اور پوری حکومتی کابینہ وزیر امور کشمیر
کے انڈر ہے
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ آزاد کشمیر کے تمام ترقیاتی فنڈز آزاد کشمیر حکومت کی بجاے کشمیر کونسل کے پاس ہوتے ہیں اور کشمیر کونسل کا چیرمین وزیراعظم آزاد کشمیر کی بجاے وزیراعظم پاکستان ہوتا ہے
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ آزاد کشمیر کا وزیراعظم یا صدر کسی بھی عالمی فورم میں کشمیریوں کا مقدمہ خود پیش نی کر سکتا
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم آپنے ملک کے منقسم حصے گلگیت بلتستان میں نہیں جا سکتے اور نہ ہی گلگیت بلتستان کے عوام کے حقوق بارےکوٴی بات کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ہاں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے حق میں اور وہاں کی کھڈ پتلی حکومت کے خلاف وزیر امور کشمیر سے پوچھ کر بیان بازی کرنےمیں آزاد کشمیر کی حکومت پوری طرح آزاد ہے
اب چونکہ ہم آزاد ہیں تو ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کےلیے نعرے ماریں کیونکہ ہم صرف نعرے ہی مار سکتے ہیں اس لیے کہ
آزاد کشمیر کی فوج کو آزاد حکومت نے اس امید پر ختم کر کے پاک فوج میں ضم کر دیا تھا کہ پاک فوج ہمیں کشمیر آزاد کروا کے دے گی اور جس آزادی کو ہم آزاد کشمیر اور گلگیت بلتستان کے عوام انجوے کر رہے ہیں وہی آزادی اک دن ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی انجوے کریں گے
وطن ہمارا آزاد کشمیر آزاد کشمیر...
* آزاد کشمیر*
ویسے تو ہم آزاد ہی ہیں ہمارا آپنا جھنڈا ہے ہمارا آپنا وزیراعظم ہے آپنا صدر ہے آپنی سپریم کوٹ ہے
بس اتنا ہے کہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک نے آزاد کشمیر کو آزاد ملک تسلیم نی کیا ہوا
باقی ہم آزاد ہیں
الله پاک کی مہربانی سے ہماری آپنی قانون سازاسمبلی ہے
بس اتنا ہے کہ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے لیے ٹکٹ گڑھی خدابخش ، جاتی عمرہ ، اور بنی گالہ سے ایشو ہوتے ہیں
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم اور صدر آزاد کشمیر کے عوام الیکٹ نی کرتے بلکے اسلام آباد سرکار سلیکٹ کرتی ہے
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ چیف سیکرٹری ، آٴی جی پولیس اور چند اس طرح کے بڑے عہدوں پر ہماری آزاد حکومت کسی کشمیری کو تعینات کرنے کا اختیار نہیں رکھتی اس لیے یہ لینڈآفسران پاکستان سے آتے ہیں
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ کشمیر میں بہتے پانیوں پر اور اس سے پیدا ہونے والی بجلی پر آزاد کشمیر حکومت کے دٴراہ اختیار میں نہیں
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ ہماری آزاد حکومت کشمیری طالبعلموں کو مطالعہ کشمیر نی پڑھا سکتی کیوں کہ اس سے کشمیری طالبہ گمراہ ہو سکتے ہیں اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوے پورے تعلیمی نصاب سے کشمیر کے نام تک کو مٹا دیا گیا ہے
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم ، صدر اور پوری حکومتی کابینہ وزیر امور کشمیر
کے انڈر ہے
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ آزاد کشمیر کے تمام ترقیاتی فنڈز آزاد کشمیر حکومت کی بجاے کشمیر کونسل کے پاس ہوتے ہیں اور کشمیر کونسل کا چیرمین وزیراعظم آزاد کشمیر کی بجاے وزیراعظم پاکستان ہوتا ہے
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ آزاد کشمیر کا وزیراعظم یا صدر کسی بھی عالمی فورم میں کشمیریوں کا مقدمہ خود پیش نی کر سکتا
باقی ہم آزاد ہیں
بس اتنا ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم آپنے ملک کے منقسم حصے گلگیت بلتستان میں نہیں جا سکتے اور نہ ہی گلگیت بلتستان کے عوام کے حقوق بارےکوٴی بات کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ہاں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے حق میں اور وہاں کی کھڈ پتلی حکومت کے خلاف وزیر امور کشمیر سے پوچھ کر بیان بازی کرنےمیں آزاد کشمیر کی حکومت پوری طرح آزاد ہے
اب چونکہ ہم آزاد ہیں تو ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کےلیے نعرے ماریں کیونکہ ہم صرف نعرے ہی مار سکتے ہیں اس لیے کہ
آزاد کشمیر کی فوج کو آزاد حکومت نے اس امید پر ختم کر کے پاک فوج میں ضم کر دیا تھا کہ پاک فوج ہمیں کشمیر آزاد کروا کے دے گی اور جس آزادی کو ہم آزاد کشمیر اور گلگیت بلتستان کے عوام انجوے کر رہے ہیں وہی آزادی اک دن ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی انجوے کریں گے
وطن ہمارا آزاد کشمیر آزاد کشمیر...
Sunday, 21 May 2017
History of Ruling Family in Saudi Arabia
If you did this mistake on WhatsApp You may ban by WhatsApp
Whatsapp is used by 1 billion around the globe and is one of the major social media apps being used in Pakistan. But being such a major part of social media means spam and irregular use of Whatsapp for marketing and flirting.To stop it Whatsapp have introduced barriers which can ban users temporarily or permanently forever. Because Whatsapp believes that the app should only be used to connect with your friends, family and colleagues.
So if you send same message to many people on your list then Whatsapp software will consider it spam, if you have to make an announcement then it is better to use broadcast message option.
If you make many groups and add those who are not on your contact list then Whatsapp will also consider it as spam
and will ban you.Story of a Man who is out from his country for his family in Urdu Language
پیارے ابو جان اور امی جان
مجھے آج ملک سے باہر پانچ سال ہو گئے اور میں اگلے ماہ اپنے وطن واپسی کا ارداہ کر رہا ہوں، میں نے اپنے ویزا کے لیے جو قرض لیا تھا وہ ادا کر چکا ہوں اور کچھ اخراجات پچھلی چھٹی پر ہو گئے تھے۔ تحفے تحائف لینے میں اور کچھ دیگر اخراجات۔ اب میرے پاس کوئی بڑی رقم موجود نہیں لیکن میری صحت ابھی ٹھیک ہے اور میں خود کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ پاکستان جا کر کوئی بھی اچھی نوکری کر سکوں اور گھر کے اخراجات چلا سکوں۔ یہ جگہ مجھے پسند نہیں ہے میں اپنے گھر رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں
آپکا پیارا – جمال
پیارے بیٹے جمال
تمھارا خط ملا اور ہمیں تمھاری چھٹی کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوئی۔باقی تمھاری امی کہہ رہی تھی کہ گھر کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے اور تم جانتے ہو برسات شروع ہونے والی ہے۔ یہ گھر رہنے کے قابل نہیں ہے۔ گھر چونکہ پرانی اینٹوں اورلکڑیوں سے بنا ہے اس لیے اس کی مرمت پر کافی خرچ آئے گا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کنکریٹ اور سیمینٹ سے بنا ہوا گھر ہو تو بہت اچھا ہو۔ ایک اچھا اور نیا گھر وقت کی ضرورت ہے۔ تم جانتے ہو یہاں کے کیا حالات ہیں اگر تم یہاں آ کر کام کرو گے تو اپنی محدود سی کمائی سے گھر کیسے بنا پاؤ گے۔ خیر گھر کا ذکر تو ویسے ہی کر دیا آگے جیسے تمھاری مرضی۔
تمھاری پیاری امی اور ابو۔
پیارے ابو جان اور امی جان
میں حساب لگا رہاتھا آج مجھے پردیس میں دس سال ہو چکے ہیں۔ اب میں اکثر تھکا تھکا رہتا ہوں، گھر کی بہت یاد آتی ہے اور اس ریگستان میں کوئی ساتھی نہیں ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اگلے ماہ ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے گھر آجاؤں۔ دس سال کے عرصے میں الحمدللہ ہمارا پکا گھر بن چکا ہے اور جو ہمارے اوپر جو قرضے تھے وہ بھی میں اتار چکا ہوں۔ اب چاہتا ہوں کہ اپنے وطن آ کر رہنے لگ جاؤں۔ اب پہلے والی ہمت تو نہیں رہی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کر کے ، ٹیکسی چلا کے گھر کا خرچ چلا لوں گا۔ اس ریگستان سے میرا جی بھر گیا ہے۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے۔
آپکا پیارا – جمال
پیارے بیٹے جمال
تمھارا خط ملا اور ہم پچھتا رہے ہیں اس وقت کو جب ہم نے تمھیں باہر جانے دیا، تم ہمارے لیے اپنے لڑکپن سے ہی کام کرنے لگ گئے۔ ایک چھوٹی سے بات کہنی تھی بیٹا۔ تمھاری بہنا زینب اب بڑی ہو گئی ہے ، اس کی عمر ۲۰ سے اوپر ہو گئی۔ اس کی شادی کے لیے کچھ سوچا ، کوئی بچت کر رکھی ہے اس لیے کہ نہیں۔ بیٹا ہماری تو اب یہی خواہش ہے کہ زینب کی شادی ہو جائے اور ہم اطمینان سے مر سکیں۔ بیٹا ناراض مت ہونا ، ہم تم پر کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔
تمھاری پیاری امی اور ابو۔
پیارے ابو جان اور امی جان
آج مجھے پردیس میں چودہ سال ہو گئے۔ یہاں کوئی اپنا نہیں ہے۔ دن رات گدھے کی طرح کام کر کے میں بیزار ہو چکا ہوں، کمھار کا گدھا جب دن بھر کام کرتا رہتا ہے تو رات کو گھر لا کر اس کا مالک اس کے آگے پٹھے ڈال دیتا ہے اور اسے پانی بھی پلاتا ہے پر میرے لیے تو وہ بھی کوئی نہیں کرتا، کھانا پینا بھی مجھے خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ بس اب میں ویزا ختم کروا کر واپس آنے کا سوچ رہا ہوں۔ پچھلے کچھ سالوں میں اللہ کی مدد سے ہم زندگی کی بیشتر آزمائشوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ زینب بہنا کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ اپنے گھر میں سکھی ہے۔ اس کے سسرال والوں کو خوش رکھنے کے لیے میں اکثر تحفے تحائف بھی بھیج دیتا ہوں۔ اللہ کے کرم سے آپ لوگوں کو میں نے حج بھی کروا دیا اور کوئی قرضہ بھی باقی نہیں ہے۔ بس کچھ بیمار رہنے لگا ہوں، بی پی بڑھا ہوا ہے اور شوگر بھی ہو گئی ہے لیکن جب گھرآؤں گا، گھر کے پرسکون ماحول میں رہوں گا اور گھرکا کھانا کھاؤں گا تو انشاء اللہ اچھا ہو جاؤں گا اور ویسے بھی اگر یہاں مزید رہا تو میری تنخواہ تو دوائی دارو میں چلی جائے گی وہاں آ کر کسی حکیم سے سستی دوائی لے کر کام چلا لوں گا۔ اب بھی مجھ میں اتنی سکت ہے کہ کوئی ہلکا کام جیسے پرائیویٹ گاڑی چلانا کر لوں گا۔
آپکا پیارا – جمال
پیارے بیٹے جمال
بیٹا ہم تمھارا خط پڑھ کر کافی دیر روتے رہے۔ اب تم پردیس مت رہنا لیکن تمھاری بیوی زہرہ نے کچھ کہنا تھا تم سے ، اسکی بات بھی سن لو۔
(بیوی ) پیارے جمال
میں نے کبھی آپکو کسی کام کے لیے مجبور نہیں کیا اور کسی چیز کے لیے کبھی ضد نہیں کی لیکن اب مجبوری میں کچھ کہنا پڑ رہا ہے مجھے۔ آپکے بھائی جلال کی شادی کے بعد آپ کے والدین تو مکمل طور پر ہمیں بھول چکے ہیں ان کا تمام پیار نئی نویلی دلہن کے لیے ہے ، میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ آبائی گھر جلال کو دینے کا سوچ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے اگر آپ یہاں آ گئے اور مستقبل میں کبھی اس بات پر جھگڑا ہو گیا تو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچے لے کر کہاں جائیں گے۔ اپنا گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ کو پتہ ہے سیمنٹ سریہ کی قیمتیں کتنی ہیں؟ مزدوروں کی دیہاڑی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ یہاں رہ کر ہم کبھی بھی اپنا گھر نہیں بنا سکیں گے۔ لیکن میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ آپ خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔
آپکی پیاری جان۔ زہرہ
پیاری شریک حیات زہرہ
انیسواں سال چل رہا ہےپردیس میں، اور بیسواں بھی جلد ہی ہو جائے گا۔ اللہ کے فضل سے ہمارا نیا علیحدہ گھر مکمل ہو چکا ہے۔ اور گھرمیں آج کے دور کی تمام آسائشیں بھی لگ چکی ہیں۔ اب تمام قرضوں کے بوجھ سے کمر سیدھی ہو چکی ہے میری ، اب میرے پاس ریٹائرمنٹ فنڈ کے سوا کچھ نہیں بچا، میری نوکری کی مدت بھی اب ختم ہو گئی ہے۔ اس ماہ کے اختتام پر کمپنی میرا ریٹائرمنٹ فنڈ جو کہ ۲۵۰۰ ہزار درہم ہے جاری کردے گی۔ اتنے لمبے عرصے اپنے گھر والوں سے دور رہنے کے بعد میں بھول ہی گیا ہوں کہ گھر میں رہنا کیسا ہوتا ہے۔بہت سے عزیز دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور بہت سوں کی شکل تک مجھے بھول گئی۔ لیکن میں مطمئن ہوں ، اللہ کے کرم ہے کہ میں گھر والوں کو اچھی زندگی مہیا کر سکا اور اپنوں کے کام آسکا۔ اب بالوں میں چاندی اتر آئی ہے اور طبیعت بھی کچھ اچھی نہیں رہتی۔ ہر ہفتہ ڈیڑھ بعد ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب میں واپس آکر اپنوں میں رہوں گا۔ اپنی پیاری شریک حیات اور عزیز از جان بچوں کے سامنے۔
تمھارا شریک سفر – جمال
پیارے جمال
آپ کے آنے کا سن کر میں بہت خوش ہوں۔ چاہے پردیس میں کچھ لمبا قیام ہی ہو گیا لیکن یہ اچھی خبر ہے ۔ مجھے تو آپکے آنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بڑا بیٹا احمد ہے نا، وہ ضد کر رہا ہے کہ یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لے گا۔ میرٹ تو اس کا بنا نہیں مگر سیلف فنانس سے داخلہ مل ہی جائے گا۔ کہتا ہے کہ جن کے ابو باہر ہوتے ہیں سب یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لیتے ہیں۔ پہلے سال چار لاکھ فیس ہے اور اگلے تین سال میں ہر سال تین تین لاکھ۔ اور ہم نے پتہ کروایا ہے تو یونیورسٹی والے انسٹالمنٹ میں فیس بھرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ اس ماہ کی ۳۰ تک فیس کی پہلی قسط بھرنی پڑے گی،
آپکے جواب کی منتطر ، آپکی پیاری جان۔ زہرہ
اس نے بیٹے کی پڑھائی کے لیے ساری رقم بھیج دی۔ بیٹی کی شادی کے لیے جہیز اور دیگر اخراجات بھیجے۔ مگر اب ستائیس سال ہو چکے تھے۔ وہ خود کو ائر پورٹ کی طرف گھسیٹ رہا تھا۔ شوگر، بلڈ پریشر، السر ،گردے و کمر کا درد اورجھریوں والا سیاہ چہرا اس کی کمائی تھا۔ اسے اچانک اپنی جیب میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو وہ ایک ان کھلا خط تھا۔
یہ وہ پہلا خط تھا جو اس نے اپنی پردیس کی زندگی میں نہیں کھولا ۔
مجھے آج ملک سے باہر پانچ سال ہو گئے اور میں اگلے ماہ اپنے وطن واپسی کا ارداہ کر رہا ہوں، میں نے اپنے ویزا کے لیے جو قرض لیا تھا وہ ادا کر چکا ہوں اور کچھ اخراجات پچھلی چھٹی پر ہو گئے تھے۔ تحفے تحائف لینے میں اور کچھ دیگر اخراجات۔ اب میرے پاس کوئی بڑی رقم موجود نہیں لیکن میری صحت ابھی ٹھیک ہے اور میں خود کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ پاکستان جا کر کوئی بھی اچھی نوکری کر سکوں اور گھر کے اخراجات چلا سکوں۔ یہ جگہ مجھے پسند نہیں ہے میں اپنے گھر رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں
آپکا پیارا – جمال
پیارے بیٹے جمال
تمھارا خط ملا اور ہمیں تمھاری چھٹی کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوئی۔باقی تمھاری امی کہہ رہی تھی کہ گھر کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے اور تم جانتے ہو برسات شروع ہونے والی ہے۔ یہ گھر رہنے کے قابل نہیں ہے۔ گھر چونکہ پرانی اینٹوں اورلکڑیوں سے بنا ہے اس لیے اس کی مرمت پر کافی خرچ آئے گا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کنکریٹ اور سیمینٹ سے بنا ہوا گھر ہو تو بہت اچھا ہو۔ ایک اچھا اور نیا گھر وقت کی ضرورت ہے۔ تم جانتے ہو یہاں کے کیا حالات ہیں اگر تم یہاں آ کر کام کرو گے تو اپنی محدود سی کمائی سے گھر کیسے بنا پاؤ گے۔ خیر گھر کا ذکر تو ویسے ہی کر دیا آگے جیسے تمھاری مرضی۔
تمھاری پیاری امی اور ابو۔
پیارے ابو جان اور امی جان
میں حساب لگا رہاتھا آج مجھے پردیس میں دس سال ہو چکے ہیں۔ اب میں اکثر تھکا تھکا رہتا ہوں، گھر کی بہت یاد آتی ہے اور اس ریگستان میں کوئی ساتھی نہیں ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اگلے ماہ ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے گھر آجاؤں۔ دس سال کے عرصے میں الحمدللہ ہمارا پکا گھر بن چکا ہے اور جو ہمارے اوپر جو قرضے تھے وہ بھی میں اتار چکا ہوں۔ اب چاہتا ہوں کہ اپنے وطن آ کر رہنے لگ جاؤں۔ اب پہلے والی ہمت تو نہیں رہی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کر کے ، ٹیکسی چلا کے گھر کا خرچ چلا لوں گا۔ اس ریگستان سے میرا جی بھر گیا ہے۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے۔
آپکا پیارا – جمال
پیارے بیٹے جمال
تمھارا خط ملا اور ہم پچھتا رہے ہیں اس وقت کو جب ہم نے تمھیں باہر جانے دیا، تم ہمارے لیے اپنے لڑکپن سے ہی کام کرنے لگ گئے۔ ایک چھوٹی سے بات کہنی تھی بیٹا۔ تمھاری بہنا زینب اب بڑی ہو گئی ہے ، اس کی عمر ۲۰ سے اوپر ہو گئی۔ اس کی شادی کے لیے کچھ سوچا ، کوئی بچت کر رکھی ہے اس لیے کہ نہیں۔ بیٹا ہماری تو اب یہی خواہش ہے کہ زینب کی شادی ہو جائے اور ہم اطمینان سے مر سکیں۔ بیٹا ناراض مت ہونا ، ہم تم پر کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔
تمھاری پیاری امی اور ابو۔
پیارے ابو جان اور امی جان
آج مجھے پردیس میں چودہ سال ہو گئے۔ یہاں کوئی اپنا نہیں ہے۔ دن رات گدھے کی طرح کام کر کے میں بیزار ہو چکا ہوں، کمھار کا گدھا جب دن بھر کام کرتا رہتا ہے تو رات کو گھر لا کر اس کا مالک اس کے آگے پٹھے ڈال دیتا ہے اور اسے پانی بھی پلاتا ہے پر میرے لیے تو وہ بھی کوئی نہیں کرتا، کھانا پینا بھی مجھے خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ بس اب میں ویزا ختم کروا کر واپس آنے کا سوچ رہا ہوں۔ پچھلے کچھ سالوں میں اللہ کی مدد سے ہم زندگی کی بیشتر آزمائشوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ زینب بہنا کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ اپنے گھر میں سکھی ہے۔ اس کے سسرال والوں کو خوش رکھنے کے لیے میں اکثر تحفے تحائف بھی بھیج دیتا ہوں۔ اللہ کے کرم سے آپ لوگوں کو میں نے حج بھی کروا دیا اور کوئی قرضہ بھی باقی نہیں ہے۔ بس کچھ بیمار رہنے لگا ہوں، بی پی بڑھا ہوا ہے اور شوگر بھی ہو گئی ہے لیکن جب گھرآؤں گا، گھر کے پرسکون ماحول میں رہوں گا اور گھرکا کھانا کھاؤں گا تو انشاء اللہ اچھا ہو جاؤں گا اور ویسے بھی اگر یہاں مزید رہا تو میری تنخواہ تو دوائی دارو میں چلی جائے گی وہاں آ کر کسی حکیم سے سستی دوائی لے کر کام چلا لوں گا۔ اب بھی مجھ میں اتنی سکت ہے کہ کوئی ہلکا کام جیسے پرائیویٹ گاڑی چلانا کر لوں گا۔
آپکا پیارا – جمال
پیارے بیٹے جمال
بیٹا ہم تمھارا خط پڑھ کر کافی دیر روتے رہے۔ اب تم پردیس مت رہنا لیکن تمھاری بیوی زہرہ نے کچھ کہنا تھا تم سے ، اسکی بات بھی سن لو۔
(بیوی ) پیارے جمال
میں نے کبھی آپکو کسی کام کے لیے مجبور نہیں کیا اور کسی چیز کے لیے کبھی ضد نہیں کی لیکن اب مجبوری میں کچھ کہنا پڑ رہا ہے مجھے۔ آپکے بھائی جلال کی شادی کے بعد آپ کے والدین تو مکمل طور پر ہمیں بھول چکے ہیں ان کا تمام پیار نئی نویلی دلہن کے لیے ہے ، میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ آبائی گھر جلال کو دینے کا سوچ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے اگر آپ یہاں آ گئے اور مستقبل میں کبھی اس بات پر جھگڑا ہو گیا تو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچے لے کر کہاں جائیں گے۔ اپنا گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ کو پتہ ہے سیمنٹ سریہ کی قیمتیں کتنی ہیں؟ مزدوروں کی دیہاڑی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ یہاں رہ کر ہم کبھی بھی اپنا گھر نہیں بنا سکیں گے۔ لیکن میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ آپ خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔
آپکی پیاری جان۔ زہرہ
پیاری شریک حیات زہرہ
انیسواں سال چل رہا ہےپردیس میں، اور بیسواں بھی جلد ہی ہو جائے گا۔ اللہ کے فضل سے ہمارا نیا علیحدہ گھر مکمل ہو چکا ہے۔ اور گھرمیں آج کے دور کی تمام آسائشیں بھی لگ چکی ہیں۔ اب تمام قرضوں کے بوجھ سے کمر سیدھی ہو چکی ہے میری ، اب میرے پاس ریٹائرمنٹ فنڈ کے سوا کچھ نہیں بچا، میری نوکری کی مدت بھی اب ختم ہو گئی ہے۔ اس ماہ کے اختتام پر کمپنی میرا ریٹائرمنٹ فنڈ جو کہ ۲۵۰۰ ہزار درہم ہے جاری کردے گی۔ اتنے لمبے عرصے اپنے گھر والوں سے دور رہنے کے بعد میں بھول ہی گیا ہوں کہ گھر میں رہنا کیسا ہوتا ہے۔بہت سے عزیز دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور بہت سوں کی شکل تک مجھے بھول گئی۔ لیکن میں مطمئن ہوں ، اللہ کے کرم ہے کہ میں گھر والوں کو اچھی زندگی مہیا کر سکا اور اپنوں کے کام آسکا۔ اب بالوں میں چاندی اتر آئی ہے اور طبیعت بھی کچھ اچھی نہیں رہتی۔ ہر ہفتہ ڈیڑھ بعد ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب میں واپس آکر اپنوں میں رہوں گا۔ اپنی پیاری شریک حیات اور عزیز از جان بچوں کے سامنے۔
تمھارا شریک سفر – جمال
پیارے جمال
آپ کے آنے کا سن کر میں بہت خوش ہوں۔ چاہے پردیس میں کچھ لمبا قیام ہی ہو گیا لیکن یہ اچھی خبر ہے ۔ مجھے تو آپکے آنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بڑا بیٹا احمد ہے نا، وہ ضد کر رہا ہے کہ یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لے گا۔ میرٹ تو اس کا بنا نہیں مگر سیلف فنانس سے داخلہ مل ہی جائے گا۔ کہتا ہے کہ جن کے ابو باہر ہوتے ہیں سب یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لیتے ہیں۔ پہلے سال چار لاکھ فیس ہے اور اگلے تین سال میں ہر سال تین تین لاکھ۔ اور ہم نے پتہ کروایا ہے تو یونیورسٹی والے انسٹالمنٹ میں فیس بھرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ اس ماہ کی ۳۰ تک فیس کی پہلی قسط بھرنی پڑے گی،
آپکے جواب کی منتطر ، آپکی پیاری جان۔ زہرہ
اس نے بیٹے کی پڑھائی کے لیے ساری رقم بھیج دی۔ بیٹی کی شادی کے لیے جہیز اور دیگر اخراجات بھیجے۔ مگر اب ستائیس سال ہو چکے تھے۔ وہ خود کو ائر پورٹ کی طرف گھسیٹ رہا تھا۔ شوگر، بلڈ پریشر، السر ،گردے و کمر کا درد اورجھریوں والا سیاہ چہرا اس کی کمائی تھا۔ اسے اچانک اپنی جیب میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو وہ ایک ان کھلا خط تھا۔
یہ وہ پہلا خط تھا جو اس نے اپنی پردیس کی زندگی میں نہیں کھولا ۔
Thursday, 18 May 2017
Wednesday, 17 May 2017
Problems
A lot of problems in the world would disappear if we talked to each other instead of talking about each other.
Subscribe to:
Posts (Atom)
List of Pakistani Banks in UAE
Pakistani Banks in UAE 1. Habib Bank (HBL) 2. United Bank (UBL) 3. Muslim Commercial Bank (MCB) 4. Bank Al Fallah 5. Habib Metropolita...
-
Android sms applications Permission for Premium service. When we are sending messages to non regular Numbers like 2344 or 145 etc. While...
-
 Finally Government of Pakistan is Ready to Issue E-Passports. Interior Minister announced that Passports and Immigration Off...