مسلم لیگ ن اور تحریک لبیک یا رسول اللہ
(صل اللہ علیہ و آلہ و سلم)
ایک جائزہ
پاکستان مسلم لیگ ن وہ جماعت ہے جو کہ وفاق میں تیسری مرتبہ اکثریت سے برسراقتدار آئی اور ہر دفعہ زاتی انا، ھٹ دھرمی اور غلط سیاسی حکمت عملی کی بھینٹ چڑھی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہر بار بھرپور عوامی حمایت کے ساتھ حکومت میں آئے ان کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا جائے تو ہر دور میں حکومت اور اداروں میں محاذ آرائی نظر آتی ہے چاہے وہ موجودہ دور حکومت میں عدلیہ کے ساتھ ہو یا پھر گزشتہ دور میں فوج کے ساتھ ہو.
موجود دور حکومت میں حکمران جماعت نے پاؤں پر کلہاڑی اس وقت ماری جب ختم نبوت کے متعلق حلف نامہ میں شامل شقوں میں ترمیم کی گئی جسے وزیر قانون زاہد حامد نے دیگر ارکان اسمبلی کے دستخطوں کے ساتھ منظور کر لیا. یاد رہے کہ ان ارکان اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر بڑی جماعتوں کے ارکان بھی شامل ہیں. مختلف سیاسی و مذہبی حلقوں میں یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ دستخط کرنے والے اراکین میں حکمران جماعت کے رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف، انوشہ رحمان، اور وزیر قانون زاہد حامد پیش پیش تھے. جس پر سچائی کی مہر اس وقت ثبت ہو گئی جب رانا ثناء اللہ کا ایک اور متنازعہ بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ " مسلمانوں اور قادیانیوں میں بس ایک چھوٹا سا فرق ہے"
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی چند اقلیتی نشستوں کے علاوہ سب اراکین اسمبلی مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والے ہیں. جن میں قابل ذکر مذہبی جماعتیں جو کے مذہبی فکر کے ساتھ ووٹ حاصل کرنے کے بعد اسمبلی کی نشست حاصل کرتے ہیں جیسے جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام ف، جمعیت علمائے اسلام س قابل ذکر ہیں جن کی اسمبلی میں واضح نمائندگی موجود ہے. جب اس قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو ہماری مذہبی نمائندہ جماعتوں کے اراکین خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے اور اس اسلامی بنیادی قانون کو کچھ دیر کے لیے کامیابی سے تبدیل کر دیا گیا. اور پوری قومی اسمبلی میں اگر شیخ رشید احمد کو اگر مرد مجاہد کہا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا یاد رہے کہ اسمبلی فلور پر سب سے پہلے اگر کسی نے اس ترمیم کی مخالفت کی اور اس کے خلاف احتجاج کیا تو وہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد ہیں جن کا بھرپور ساتھ رکن اسمبلی میر ظفر اللہ خان نے دیا. جب اس واقعہ پر زبردست عوامی ردعمل آیا تو حکومت نے اسے ایک کلیریکل غلطی کا رنگ دینے کی کوشش کی جو کہ رد کر دی گئی. اس پر حکومت نے اس غلطی کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا سربراہ سینئر رکن قومی اسمبلی راجہ ظفر الحق کو مقرر کیا گیا. راجہ ظفر الحق کمیٹی نے مطلوبہ وقت پر رپورٹ حکومت کو جمع کرا دی. جو کے ابھی تک سامنے نہیں لائی گئی. زرائع کے مطابق اس رپورٹ میں یہ ترمیم کوئی کلیریکل غلطی نہیں تھی بلکہ اس کے ذمہ داران حکومتی ارکان ہیں جس کی وجہ سے رپورٹ پبلک کرنے میں تاخیر برتی جا رہی ہے.
اس تاخیر کے نتیجے میں عوامی مذہبی جوش و خروش زور پکڑ گیا اور علامہ مولانا خادم رضوی کی جانب سے ایک احتجاجی دھرنے کی کال دی گئی جس کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ وزیر قانون کو اس غلطی /غفلت پر برطرف کیا اور اس کے ذمہ داران کو سامنے لایا جائے. حکومت اس سادہ سے مطالبہ کو انا کا مسئلہ بنا کر ڈٹ گئی اور کوئی اقدام نہیں کیے جب دھرنا طوالت پکڑتا گیا، احتجاج ملک گیر ہوتا گیا، دھرنے کے شرکاء بڑھتے چلے گئے اور دھرنا قائدین کے اپنے مطالبات کے پورے نہ ہونے تک اٹھنے سے انکار پر حکومت نے قانون ختم نبوت دوبارہ سے اصلی حالت میں بحال کر دیا لیکن دھرنا قائدین اپنے مطالبات پر ڈٹے رہے اور حکومت اپنی استعفہ نہ لینے کی زد پر ڈٹی رہی. دھرنے کا مکام فیض آباد انٹر چینج تھا جو کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کا سنگم بھی ہے. دھرنے کی وجہ سے یہ پل اور اسلام آباد ایکسپریس ووے مکمل بند تھی. جکومت اور دھرنا قائدین کے درمیان معنی خیز مزاکرات نہ ہونے کی وجہ سے دھرنا طویل ہوتا گیا حالات کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے معاملے کا از خود نوٹس لیا اور سماعت شروع کر دی جس میں عدالت نے انٹر چینج خالی کرانے کے لیے حکومت کو ڈیڈ لائن دے دی وزیر داخلہ کو طاقت کے استعمال سے پیدا ہونے والے حالات کا بخوبی علم تھا جس پر حکومت کی جانب سے آپریشن میں تاخیر برتی گئی اور مزاکرات کی طرف بڑھنے کی کوشش کی مگر عدالت احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے برہم ہو گئی اور شو کاز نوٹس جاری کر دیا. حکومت اور دھرنا قائدین کے درمیان مزاکرات کے ادوار بھی ہوے اور آپریشن سے پہلے کی رات کو مزاکرات صبح جاری رکھنے پر اتفاق ہوا مگر اگلی صبح آپریشن شروع کردیا گیا جس میں پنجاب پولیس، اسلام آباد پولیس، رینجرز اور ایف سی شامل تھیں. آپریشن شروع ہونے کے ساتھ ہی فورسز کی جانب سے دھرنا شرکاء کے خیمے اور ان کا سامان جس میں کھانا، کتابیں بستر وغیرہ شامل تھا سب کچھ جلا دیا اس پر دھرنا کے پر امن شرکاء مشتعل ہو گئے اور حالات ابتر ہو گئے بات شہادتوں تک جا پہنچی دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر بدترین تشدد کیا گیا اور ایک طویل دورانیہ کے آپریشن کے بعد بھی شرکاء دھرنا منتشر نہ ہوے اور حالات فورسز کے کنٹرول میں نہ آئے جس پر حکومت نے فوج طلب کر لی جس پر فوج نے اپنے ہی لوگوں پر پر تشدد کاروائی نہ کرنے کی تجویز پیش کر دی جس پر حکومت کی جانب سے وزیر قانون نے یہ کہتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کیا کہ اگر میرے استعفے سے حالات کنٹرول ہوتے ہیں تو میں استعفا دینے کے لیے تیار ہوں. یاد رہے کہ حکومت نے استعفے کا فیصلہ تب کیا جب فورسز کے دھرنے پر تشدد کے نتیجے میں ہونے والی شہادتوں کے بعد مولانا خادم رضوی نے پورا ملک بند کرنے کی کال دی اور اس نتیجے میں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع ہو گئے تھے
بعد میں وزیر قانون کے استعفے اور فوج کی جانب سے ثالثی پر حکومت اور دھرنا قائدین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا.. جس پہ مولانا خادم رضوی نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا اور ملک گیر احتجاج اور دھرنے ختم کرنے کا حکم دے دیا.
یوں ایک بروقت فیصلے نہ ملک لو خانہ جنگی سے بچا لیا. اور ایک ایسے شخص نے جان کی بازی لگا کر ختم نبوت پر آنچ نہیں آنے دی جو چلنے پھرنے سے بھی قاصر تھا. تاریخ میں شہدائے ختم نبوت اور مولانا خادم رضوی کا نام ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھے اور یاد رکھے گی.
No comments:
Post a Comment