#ایک_تلخ_حقیقت.......!!
شاهد آفریدی ایک ایسا نام ہے جسے ہندوپاک تو کیا بین الاقوامی سطح پر بھی جانا اور پہچانا جاتا ہے. گزشتہ دنوں شاہد آفریدی کا ایک انٹرویو پاکستانی اور انڈین میڈیا پر متنازعہ بن گیا جس میں انہوں نے کشمیریوں کے اس حق کی بات کی جو کے ان کا پیدائشی حق ہے. جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کشمیر نہیں چاہئیے ہم سے تو 4 صوبے نہیں سنبھالے جاتے ہم کشمیر کو کیا سنبھالیں گے، کشمیر نہ انڈیا کو دو نہ ہمیں چاہیے اسے خودمختار ملک بنا دو کم از کم اس طرح بےگناہ کوگ تو نہیں مریں گے.
اس بیان کے دو حصے تھے ایک کشمیر کی خودمختاری اور دوسری پاکستان کے 4 صوبوں والی بات. پاکستانی اور انڈین میڈیا نے زیادہ دوسرے حصے کو اچھالا کیوں کہ اس میں دونوں ممالک کی دلچسپی تھی. دیکھا جائے تو آفریدی کا بیان پاکستان کے لیے کسی حد تک تلخ ضرور تھا مگر سو فیصد حقیقت تھا. کہنے کو تو پاکستان میں چاروں صوبوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں لیکن پاکستان کے زیادہ تر پنجابیوں نے کبھی بھی سندھیوں، پشتونوں، بلوچوں کو اپنے برابر نہیں سمجھا جہاں موقع ملا انکو علاقائیت اور لسانیات کی بنیاد پر نیچا دکھانے کی کوشش کی. پنجاب چونکہ پاکستان کی آبادی اور کے لحاظ سے کل پاکستان کے نصف سے بھی زائد ہے اس لیے ملک کی زیادہ تر بھاگ دوڑ بھی انہیں کے ہاتھوں میں ہے. جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوئے یہ لوگ کئی مواقع پر زیادتی کر جاتے ہیں. اگر سندھ کی بات کی جائے تو وہ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے. جس میں کراچی صوبے کا اور ملک کا سب سے بڑا شہر ہے. جو پاکستان کا معاشی نقطہ نظر سے سب سے بڑا حصہ ہے. سندھ کے صرف کراچی شہر میں لسانی بنیادوں پر سب سے زیادہ قتل عام کیا جاتا ہے. اس کے نتیجے میں آج کراچی کے حالات ملاحظہ کر لیں وہاں زیادہ تر سندھی مہاجرین کو اور باقی علاقوں سے محنت مزدوری کی غرض سے آئے لوگوں کو اپنے برابر سمجھنے کو تیار نہیں ہیں. جس کے نتیجے میں انتہا پسندی فروغ پاتی ہے، پختون خواہ کی بات کی جائے تو پختون قوم کی پاکستان کے لیے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں خواہ وہ ایٹمی پروگرام کے پیچھے ہوں کھیل کے میدان میں ہوں تجارت میں ہوں یہ باقی شعبہ جات میں لیکن ملک کے دوسرے حصوں میں پختون قوم کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے کیا کیا فقرے کسے جاتے ہیں اور لطائف بنائے جاتے ہیں وہ بھی پختون قوم کا نام استعمال کر کے. انہیں مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، انہیں اپنی حب الوطنی کا ثبوت دینا پڑھتا ہے. ان کو نشانہ بنا کر قتل کر دیا جاتا ہے......!
اب بات بلوچستان کی جس قوم نے متفقہ طور پر اپنی ریاستی اسمبلی سے قرارداد منظور کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور پھر ہمارے پاکستان میں بلوچوں کے ساتھ کیا کیا ہوا یہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے، اور ماضی کی حکومتیں اس کا اقرار کر چکی ہیں جب سوئ سے نکلنے والی گیس اسلامآباد تک استعمال ہو سکتی ہے تو وہ ان بلوچوں کے گھروں میں کیوں استعمال نہیں ہو سکتی، ایسی کئی زیادتیوں کے بعد ایک بلوچ راہنما اگر اپنی شنوائی قومی اسمبلی میں نہیں کروا سکتا جس کا صوبہ ملک کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہو جو قدرتی وسائل سے بھی مالامال ہو. تو وہ اخر کیا کرے گا؟؟ وہ پھر باغی ہو گا. جس کی زندہ مثال اکبر بگٹی ہے. جب علاقے میں ایسے مسائل ہوں تو ملک دشمن طاقتیں بھی سرگرم ہو جاتی ہیں جس کی بلوچستان میں سرگرمیوں سے ہر ذی شعور پاکستانی واقف ہے. ان حالات میں ہم آج تک کالاباغ ڈیم کے مسئلے پر صوبوں کو اکٹھا نہیں کر سکے اور اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم وہ ڈیم کی تعمیر نہ کر سکے. ان نا انصافیوں کے ہوتے ہوے بنگلا دیش بنا ان زیادتیوں کے نتیجے میں پشتون تحفظ موومنٹ بنی جس میں ملک دشمن قوتوں نے فائدہ اٹھایا اور منظور پشین جیسا پڑھا لکھا نوجوان اس کا راہنما بنا........
یہ تھی وہ تلخ حقیقت جوآفریدی کے بیان کے دوسرے حصے کے پیچھے تھی. پہلے حصے والی حقیقت
(جاری ہے)
شاهد آفریدی ایک ایسا نام ہے جسے ہندوپاک تو کیا بین الاقوامی سطح پر بھی جانا اور پہچانا جاتا ہے. گزشتہ دنوں شاہد آفریدی کا ایک انٹرویو پاکستانی اور انڈین میڈیا پر متنازعہ بن گیا جس میں انہوں نے کشمیریوں کے اس حق کی بات کی جو کے ان کا پیدائشی حق ہے. جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کشمیر نہیں چاہئیے ہم سے تو 4 صوبے نہیں سنبھالے جاتے ہم کشمیر کو کیا سنبھالیں گے، کشمیر نہ انڈیا کو دو نہ ہمیں چاہیے اسے خودمختار ملک بنا دو کم از کم اس طرح بےگناہ کوگ تو نہیں مریں گے.
اس بیان کے دو حصے تھے ایک کشمیر کی خودمختاری اور دوسری پاکستان کے 4 صوبوں والی بات. پاکستانی اور انڈین میڈیا نے زیادہ دوسرے حصے کو اچھالا کیوں کہ اس میں دونوں ممالک کی دلچسپی تھی. دیکھا جائے تو آفریدی کا بیان پاکستان کے لیے کسی حد تک تلخ ضرور تھا مگر سو فیصد حقیقت تھا. کہنے کو تو پاکستان میں چاروں صوبوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں لیکن پاکستان کے زیادہ تر پنجابیوں نے کبھی بھی سندھیوں، پشتونوں، بلوچوں کو اپنے برابر نہیں سمجھا جہاں موقع ملا انکو علاقائیت اور لسانیات کی بنیاد پر نیچا دکھانے کی کوشش کی. پنجاب چونکہ پاکستان کی آبادی اور کے لحاظ سے کل پاکستان کے نصف سے بھی زائد ہے اس لیے ملک کی زیادہ تر بھاگ دوڑ بھی انہیں کے ہاتھوں میں ہے. جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوئے یہ لوگ کئی مواقع پر زیادتی کر جاتے ہیں. اگر سندھ کی بات کی جائے تو وہ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے. جس میں کراچی صوبے کا اور ملک کا سب سے بڑا شہر ہے. جو پاکستان کا معاشی نقطہ نظر سے سب سے بڑا حصہ ہے. سندھ کے صرف کراچی شہر میں لسانی بنیادوں پر سب سے زیادہ قتل عام کیا جاتا ہے. اس کے نتیجے میں آج کراچی کے حالات ملاحظہ کر لیں وہاں زیادہ تر سندھی مہاجرین کو اور باقی علاقوں سے محنت مزدوری کی غرض سے آئے لوگوں کو اپنے برابر سمجھنے کو تیار نہیں ہیں. جس کے نتیجے میں انتہا پسندی فروغ پاتی ہے، پختون خواہ کی بات کی جائے تو پختون قوم کی پاکستان کے لیے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں خواہ وہ ایٹمی پروگرام کے پیچھے ہوں کھیل کے میدان میں ہوں تجارت میں ہوں یہ باقی شعبہ جات میں لیکن ملک کے دوسرے حصوں میں پختون قوم کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے کیا کیا فقرے کسے جاتے ہیں اور لطائف بنائے جاتے ہیں وہ بھی پختون قوم کا نام استعمال کر کے. انہیں مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، انہیں اپنی حب الوطنی کا ثبوت دینا پڑھتا ہے. ان کو نشانہ بنا کر قتل کر دیا جاتا ہے......!
اب بات بلوچستان کی جس قوم نے متفقہ طور پر اپنی ریاستی اسمبلی سے قرارداد منظور کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور پھر ہمارے پاکستان میں بلوچوں کے ساتھ کیا کیا ہوا یہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے، اور ماضی کی حکومتیں اس کا اقرار کر چکی ہیں جب سوئ سے نکلنے والی گیس اسلامآباد تک استعمال ہو سکتی ہے تو وہ ان بلوچوں کے گھروں میں کیوں استعمال نہیں ہو سکتی، ایسی کئی زیادتیوں کے بعد ایک بلوچ راہنما اگر اپنی شنوائی قومی اسمبلی میں نہیں کروا سکتا جس کا صوبہ ملک کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہو جو قدرتی وسائل سے بھی مالامال ہو. تو وہ اخر کیا کرے گا؟؟ وہ پھر باغی ہو گا. جس کی زندہ مثال اکبر بگٹی ہے. جب علاقے میں ایسے مسائل ہوں تو ملک دشمن طاقتیں بھی سرگرم ہو جاتی ہیں جس کی بلوچستان میں سرگرمیوں سے ہر ذی شعور پاکستانی واقف ہے. ان حالات میں ہم آج تک کالاباغ ڈیم کے مسئلے پر صوبوں کو اکٹھا نہیں کر سکے اور اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم وہ ڈیم کی تعمیر نہ کر سکے. ان نا انصافیوں کے ہوتے ہوے بنگلا دیش بنا ان زیادتیوں کے نتیجے میں پشتون تحفظ موومنٹ بنی جس میں ملک دشمن قوتوں نے فائدہ اٹھایا اور منظور پشین جیسا پڑھا لکھا نوجوان اس کا راہنما بنا........
یہ تھی وہ تلخ حقیقت جوآفریدی کے بیان کے دوسرے حصے کے پیچھے تھی. پہلے حصے والی حقیقت
(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment